ترکیہ کے ریسکیو گروپ کی ابتدائی تحقیقات میں انکشاف کیا گیا کہ جس ہیلی کاپٹر میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان کی موت ہوئی تھی اس میں یا تو سگنل بھیجنے والا آلہ ٹرانسپونڈر بند تھا یا موجود ہی بند تھا۔برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ کی رپورٹ کے مطابق ترک وزیر ٹرانسپورٹ عبدالقادر یورالو اوغلو نے صحافیوں کو بتایا کہ حادثے کی خبر سنتے ہی ترک حکام نے ہیلی کاپٹر کے ٹرانسپونڈر سے سگنل کی جانچ کی لیکن حادثے کے بعد ہیلی کاپٹر کے مقام کا فوری تعین نہیں کیا جا سکا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرانسپونڈر سسٹم بند تھا یا نصب ہی نہیں کیا گیا تھا۔اس کےعلاوہ ایرانی حکومت کو پہلے ہی پرانے ہیلی کاپٹروں کی خراب حالت سے متعلق خبردار کردیا گیا تھا۔رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ حکام کی جانب سے ایک میمو میں ایرانی حکومت پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اپنے سیاسی قائدین اور اہم شخصیات کے لیے 2 روسی ہیلی کاپٹر خریدیں کیونکہ پرانے ہیلی کاپٹروں کی حالت ٹھیک نہیں تھی جس پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔یاد رہے کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی جس ہیلی کاپٹر میں سفر کررہے تھے وہ امریکا کا تیار کردہ ’بیل 212‘ (Bell 212) ہیلی کاپٹر تھا۔بیل ہیلی کاپٹر نامی کمپنی(جسے اب بیل ٹیکسٹرون کے نام سے جانا جاتا ہے) نے 1960 کی دہائی کے آخر میں اس ہیلی کاپٹر کو تیار کیا تھا، یہ یو ایچ-ون ایروکوس( UH-1 Iroquois) ہیلی کاپٹر کا اپ گریڈ ورژن تھا، جو خاص طور پر کینیڈین فوج کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔قبل ازیں سابق ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والے حادثے کا ذمہ دار امریکا کو قرار دے چکے ہیں۔سرکاری میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹر حادثے کی ذمہ داری امریکی پابندیوں پرعائد ہوتی ہے، امریکی پابندیوں کے باعث ایرانی ایوی ایشن انڈسٹری کو مشکلات کا سامنا ہے۔
حادثے کا پسِ منظر
یاد رہے کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو لے جانے والا ہیلی کاپٹر 19 مئی کو آذربائیجان کی سرحد پر ڈیم کی افتتاحی تقریب سے واپس آتے ہوئے موسم کی خرابی کے باعث گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں ایرانی صدر، وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان و دیگر حکام جاں بحق ہوگئے تھے۔ایرانی حکام نے 20مئی صبح ایرانی صدر اور وزیر خارجہ سمیت دیگر کی موت کی تصدیق کی تھی۔ہیلی کاپٹر میں 9 افراد سوار تھے، جن میں صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ امیر عبداللہیان، مشرقی آذربائیجان کے گورنر مالک رحمتی، تبریز کے امام سید محمد الہاشم،صدر کے سکیورٹی یونٹ کے کمانڈر سردار سید مہدی موسوی، باڈی گارڈ اور ہیلی کاپٹر کا عملہ موجود تھے۔
54