خدا امان
مقدمہ :
انسان کا جسم ایک ایسا وجود ہے جس کے فہم کا دعوی کوئی انسان عرضی نہیں کرسکتا۔ غذائیں اور دوائیں اس جسم انسانی میں جاکر کیا حالات پیدا کرتی ہیں ان کے بارے میں کوئی حکم لگانا انسان عرضی کے فہم سے بالاتر ہے۔ بڑے بڑے سائینس دانوں نے اور طب کے ماہرین نے دعوے کئے ہیں ۔ مثلا ادویات کی ایجادات ، تجربات ، انکشافات اور اکتشافات کی بنیادوں پر ہوئی ہے اور ان ادویات کی ایجادات کے جسم انسانی پر اثرات کو حتما بیان کیا گیا ہے مگر ان سب کے باوجود ہزارہا دوائیں واپس لے لی گئیں کیونکہ ان ادویات نے جسم انسانی میں فسادات برپا کردئے حالانکہ ماہرین نے ان کے اثرات پر یقین کا اظہار کیا تھا۔
سائینس دان اور طبی ماہرین تجربات اور مطالعات کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ مختلف اقسام کی غذاوں کے کھانے کی بنا ء پر غذا کی کچھ مقدار نظام انہضام سے گزرتی ہے اور بدن کے خلیوں کے کام نہیں آتی بلکہ معدہ کی دیواروں اور دل کے اطراف بلکہ بدن کے حساس مراکز میں ذخیرہ ہوجاتی ہے۔ غذا کی یہی مقدار کچھ مدت گزرنے کے بعد قسم قسم کی تعفن کا شکار ہوجاتی ہے اور اس بناء پر مختلف بیماریاں ظاہر ہوتی ہیں ۔ جس قدر اضافی مواد زیادہ ہوگا اسی قدر تعفن بھی شدید ہوتا ہے اور بیماری میں بھی شدت آجاتی ہے۔ فطری طور پر ان بیماریوں کے نئے نئے نام سامنے آتے ہیں جبکہ ان تمام بیماریوں کی بنیاد اور جڑ جراثیم اور وائرس کا پرورش پانا ہے۔
اس بناء پر بیماریوں کے علاج کے لئے اور تمام جراثیم کے خاتمے کے لئے گندگی کے ان ذخائر کو ختم کیا جائے ۔ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ بدن کو غذا نہ پہنچا یا جائے ۔ اسلام نے اس طریقہ علاج کو روزہ نام دیا ہے روزہ کے ذریعے ایک ہی دفعہ میں تمام بیماریوں کا علاج ہوتا ہے۔
روزے کے ظاہری فوائد :
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک مشہور حدیث میں صراحت کے ساتھ نقل کیا گیا ہے ۔ حضور اکرم ارشاد فرماتے ہیں : المعدۃ بیت کل داء والحمیتہ راس کل دواء ۔ ترجمہ : معدہ تمام بیماریوں کا گھر ہے اور پرہیز (روزہ )تمام دواوں میں سرفہرست ہے۔ اسی مطلب کو حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے : ” الحمیۃ راس کل دواء والمعدۃ بیت کل داء ۔ یعنی پرہیز ہر دوا کے سر فہرست ہے اور معدہ ہر بیماری کا گھر ہے۔
الیکسی سوفورین کا تجربہ:
الیکسی سوفورین اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر ایک نئے طریقہ علاج کو پیش کیا ہے اور انہوں نے اس طریقے کو منظم پروگرام کے طور پر پیش کیا ہے ۔ اس پروگرام پر عمل درآمد کرتے ہوئے اپنے آپ کو دردناک بیماریوں جیسے سردرد ، چکر آنے وغیرہ کی روک تھام اور اس موضوع پر ایک مفصل اور جامع کتاب لکھی ہے۔ اور خلاصہ کے طور پر فرمایا کہ جب ایک انسان کامل روزہ رکھتا ہے تو انسان کا معدہ جس میں تمام کھائی ہوئی غذائیں ہضم ہوجاتی ہیں انسانی جسم کو کثافتوں سے پاک کرنے کی مشین بن جاتا ہے یا یہ کہ مسلسل غذاوں کے کھائے جانے کی وجہ سے فاضل غذاوں کے بقایا جات کا ذخیرہ بن کر سیوریج سسٹم کا نمونہ بن جاتا ہے جن کے خارج ہونے کے ساتھ جسم انسانی سے ۹۵ فیصد بیماریاں بھی خارج ہوجاتی ہیں ۔
لمبی عمر کا راز :
روسی ماہرین الابدان پروفیسر وی ۔ این ۔ نکٹین نے لمبی عمر سے متعلق اپنی ایک اکسیر دوا کے انکشاف کے سلسلے میں لندن میں ۲۲ مارچ ۱۹۶۰ء کو بیان دیتے ہوئے کہا : اگر ذیل کے تین اصول زندگی اپنا لئے جائیں تو بدن کے زہریلے مواد خارج ہوکر بڑھاپا روک دیتے ہیں۔ اول : خوب محنت کیا کرو ۔ ایک ایسا پیشہ جو انسان کو مشغول رکھے جسم کے رگ و ریشہ میں تازگی پیدا کرے ۔ دوم : ورزش کیا کرو باالخصوص زیادہ چلنا پھرنا ۔ سوم : غذا جو تم پسند کرو کھایا کرو۔ لیکن ہر مہینہ میں کم از کم ایک مرتبہ فاقہ ضرور کیا کرو ۔
روزے کا جگر پر اثر :
روزے کے ذریعے جگر کو چار سے چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے یہ روزے کے بغیر قطعی نا ممکن ہے ۔ کیونکہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک بھی اگر معدہ میں داخل ہوجائے تو پورا کا پورا نظام ہضم اپنا کام شروع کرتا ہے اور جگر فورا مصروف عمل ہوجاتا ہے ۔ سائنسی نکتہ سے یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ اس آرام کا وقفہ ایک سال میں ایک ماہ تو ہونا ہی چاہئے ۔
روزے کے ظاہری فوائد میں سے یہ ہے کہ اس کی ظاہری تاثیر کسی ایک خاص بیماری پر نہیں ہوتی بلکہ روزہ پورے جسم کو صحت اور تازگی سے ہمکنار کرتا ہے اور تمام قسم کی بیماریوں سے نجات دیتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص پرانے ورم اور سوزش کا شکار ہو اور اس سے نجات پانے کے لئے روزہ رکھے تو روزہ صرف اسی ایک بیماری کا علاج نہیں کرتا بلکہ سردرد ، آنکھ کا درد ، کھانسی وغیرہ دوسرے تمام امراض کا علاج بھی کرتا ہے اور بھاری تھکا دینے والے کاموں کے کرنے کی ہمت اور تازگی بخشتا ہے ۔
روزے کا جسم کے مختلف حصوں پر اثر :
جناب الیکسی سوفورین بیان فرماتے ہیں کہ جناب س س نے ۱۴ دن روزے رکھے ان کے وزن میں ۱۱ کلو کمی ہوئی ۔ لیکن جو نتائج حاصل ہوئے کچھ یوں ہیں :
۱۔ روزہ شروع کرنے کے ایک ہفتے بعد تین عدد پتھر اور پچاس سنگریزے اس سے خارج ہوئے پتھروں کا حجم کبوتر کے انڈے جتنا تھا۔
۲۔ بیمار کا معدہ پہلے بہت کمزور تھا روزے کے بعد بہت قوی ہوگیا ۔
۳۔ دوسرے ہفتے کے بعد جو نمکیات اس کی پیٹھ پر جن کی وجہ سے وہ عرق النساء میں مبتلاء ہوا تھا اور ڈاکٹروں نے اسے لاعلاج قرار دیا تھا زائل ہوگئیں۔ مسلم ہے کہ قاری ۱۴ دن کے فوائد کو نظرانداز نہیں کرسکتا ۔
پوپ ایلف گال کا تجربہ :
پوپ ایلف گال یہ ہالینڈ کا بڑا پادری گزرا ہے اس نے روزے کے بارے میں اپنے تجربات بیان کئے ہیں ۔ میں اپنے روحانی پیروکاروں کو ہر ماہ تین روزے رکھنے کی تلقین کرتا ہوں ۔ میں نے اس طریقہ کار کے ذریعے جسمانی اور وزنی ہم آہنگی محسوس کی ۔ میرے مریض مسلسل مجھ پر زور دیتے کہ میں انہیں کچھ اور طریقہ بتاوں لیکن میں نے یہ اصول وضع کرلیا کہ ان میں وہ مریض جو لاعلاج ہیں ان کو تین یوم نہیں بلکہ ایک ماہ تک روزے رکھوائے جائیں ۔ میں نے شوگر dibetese دل کے امراض (Heart Diseases) اور معدے کے امراض میں مبتلا مریضوں کو مستقل ایک ماہ روزے رکھوائے ۔ شوگر کے مریضوں کی حالت بہتر ہوئی ان کو شوگر کنٹرول ہوگئی۔ دل کے مریضوں کی بے چینی اور سانس کا پھولنا کم ہوا ۔ معدے کے مریضوں کو سب سے زیادہ افاقہ ہوا ۔ کچھ عرصہ قبل یہ سمجھا جاتا تھا کہ روزہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ اس سے نظام ہضم کو آرام ملتا ہے۔ جیسے جیسے طبی علم نے ترقی کی اس حقیقت کا بتدریج علم حاصل ہوا کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ ہے اس وجہ سے قرآن کریم میں سورہ بقرہ کی آیات نمبر ۱۸۳ سے ۱۸۷ تک دین کے ایک اہم رکن روزہ کا حکم دیا گیا ہے ۔ ہم اگر آیت نمبر ۱۸۳ کے آخری حصہ میں بیان کردہ حقائق کا طبی نکتہ سے مطالعہ کریں گے۔ تو معلوم ہوگا کہ روزہ ایک اچھی چیز ہے جس سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں فرمایا : اگر تم سچ کو سمجھو تو تمہارے حق میں بہتر ہے کہ مشکلات کے باوجود بھی تم روزہ رکھو ۔
روزے کے معاشرتی اثرات :
روزے کے ظاہری فوائد میں سے ایک معاشرتی اثر ہے ۔ اسلام انصاف ، عدل اور غریب پروری سکھاتا ہے جب پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے تو دوسروں کی بھوک کا احساس نہیں ہوتا اور زبان جب پانی سے تر ہوتی ہے تو دوسروں کی پیاس کا احساس نہیں ہوتا ۔ روزہ مسلمانوں کو ترس ، رحم اور غریب پروری سکھاتا ہے یہ چیزیں اسلامی معاشرے کا حصہ ہیں جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام روزے کے فلسفے کو بیان کرنے کے مقام میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں : خدا نے روزے کو واجب کیا ہے تاکہ امیر اور فقیر مساوی ہوں اور توانگر بھی گرسنگی اور بھوک کو محسوس کریں اور فقیروں و بھوکوں پر رحم کریں ۔
روزے کے باطنی فوائد :
عقل بشر ، عقل برتر یا عقل کل کے فلسفہ احکام کو بیان کرنے سے عاجز ہے ۔ جب یہ واضح ہوجائے کہ عقل کمتر یعنی عقل بشر فلسفہ و راز ارادہ قدرت (کہ عقل کل ہے )کو درک نہیں کرسکتا تو اس اصل کے مطابق فلسفہ روزہ کے باب میں بھی کہہ سکتے ہیں کہ فلسفہ اصلی روزہ کو بھی عقل ناقص انسان نہیں جان سکتا ۔ لیکن یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ خدای مہربان روزہ کو مثبت اثرات اور بے شمار فوائد کو مدنظر رکھ کر اپنے بندوں پر واجب کیا ہے ۔ ذیل میں بعض فوائد باطنی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ۔
۱۔ تقویت تقوی :
قرآن کریم کے ۱۰۵ موارد میں خداوند کریم نے لوگوں کو تقوی اختیار کرنے کی تاکید کی ہے اور فرمایا ہے کہ اعمال بھی صرف اس انسان کے قابل قبول ہیں جس نے تقوی اختیار کیا ہے مثلا قرآن کے سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۲۷ میں ارشاد فرمایا : “انما یتقبل اللہ من المتقین ” ۔ یعنی خدا صرف متقین کے اعمال کو قبول کرتا ہے اور اسی طرح معیار برتری انسان کو تقوی قرار دیا ہے اور فرمایا ہے : ” ان اکرمکم عند اللہ اتقکم ” ۔ ترجمہ : تم میں سے بہترین انسان وہ ہے خدا کے پاس جو متقی ہے ۔ عوامل تقویت تقوی میں سے ایک اہم عامل روزہ ہے جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے : ” یا ایھاالذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون ” ۔ ترجمہ : اے ایمان والو ؛ تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلے والوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم پرہیزگار (متقی )بن جاو ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : اگر تم شادی نہیں کرسکتے ہو تو روزہ رکھو کیونکہ یہ شہوت کے غلبہ کو کم کرتا ہے اور آپ کے تقوی درونی کی تقویت کا سبب ہے ۔ روزہ انسان کے تقوی کا سبب ہے اس کا ایک راز یہ بھی ہے کہ انسان کے اندر خدا گرایی اور مسائل عرفانی و معنوی پیدا کرتا ہے ۔
۲۔ تقویت صبر و پایداری :
قرآن ارشاد فرماتا ہے : ” یا ایھا الذین آمنوا استعینوا باالصبر و الصلوۃ ” ۔ بعض مفسروں کی نظر میں جس کی قرآن دعوت دے رہا ہے روزہ ہے کیونکہ فلسفہ روزہ میں سے ایک انسان کے لئے صبر اختیار کرنا ہے ۔ انسان کو روز مرہ زندگی میں مشکلات اور دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے ان سے مقابلہ نماز اور روزہ کے ذریعے ممکن ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : ” روزہ اضطراب درونی انسان اور دل کی تاریکیوں کو ختم کرتا ہے ” ۔ اور اسی طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : جب بھی انسان کو مشکلات کا سامنا ہو اور دل مغموم ہو تو روزہ کے ذریعے اس کا علاج کریں ۔ جب حضرت نوح نے اپنے اصحاب و یاران کو کشتی میں سوار کرایا (ماہ رجب میں )تو حکم دیا کہ روزہ رکھیں کیونکہ روزہ آدمی کے روح کو تقویت دیتا ہے اور صبر و شکیبایی پیدا کرتا ہے ہر قسم کی اضطراب روحی کو برطرف کرتا ہے ۔
۳۔ تقویت روحیہ آخرت گرایی :
روزہ کے ذریعے انسان دنیاوی زندگی کی نسبت اخروی زندگی کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : روزہ کے وجوب کا راز یہ ہے کہ آدمی بھوک اور پیاس جیسی سختی کو چکھے اور خدا کے حضور خضوع اور خشوع کا مظاہرہ کرے۔خدا کے سامنے انکساری اور عاجزی کرے اور آخرت کی سختی کا احساس کرے اور یاد آخرت کو اپنے دل سے نہ نکالے ۔ اسی طرح فرمایا : لوگ روزہ کے ذریعے گرسنگی بھوک اور پیاس کے مزے کو چکیں اور آخرت کو یاد کریں تاکہ پاداش اور اجر کے مستحق قرار پائیں ۔
۴۔ روزہ اور آرامش روانی :
روزہ کے ذریعے انسان روحی آرامش کو حاصل کرتا ہے نگرانی اور پریشانیوں کا مقابلہ کرتا ہے ۔ پیغمبر اکرم کی یہ روش تھی کہ جب غمگین ہوتے تو نماز پڑھتے اور روزے رکھتے اور انہیں کے ذریعے اپنے غموں کا علاج کرتے ۔ ” کان النبی حزنہ امر استعان باالصوم و الصلوۃ “۔ فخر رازی اپنی تفسیر میں سورہ رعد کی آیت نمبر ۲۸ کے ذیل میں لکھتا ہے : انسان کا قلب دو حالتوں سے خالی نہیں ہوتا ۔ ایک حالت یہ ہے کہ جب انسان مادیات کے دریا میں غرق ہوجاتا ہے تو اضطراب اور پریشانیوں میں مبتلا ہوتا ہے لیکن جب امور ماورایی اور معنویات کے تفکر میں غرق ہوتا ہے تو ایک نفسانی سکون باطنی آرامش و آسایش کا احساس کرتا ہے ۔ اسی لئے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : جب بھی کسی انسان کو ہولناک واقعہ پیش آئے اور فکر در غرق دیتا ہو فورا روزہ رکھے ۔
۵۔ پاک سازی دل اور نور معرفت میں اضافہ :
روزہ انسان کے دل میں لگے زنگ کو زائل کرتا ہے اور باطنی ناپاکی اور آلودگی کو صاف کرنے کا باعث بنتا ہے اور دل میں نور معرفت کو بڑھاتا ہے ۔ پیغمبر اکرم ارشاد فرماتے ہیں : ماہ رمضان کے روزے اور ہر ماہ کے اول ، وسط اور آکر کے روزے دل کے زنگ کو ختم کرتے ہیں ۔ روزہ دل کو گناہوں اور معصیت سے پاک کرتا ہے ، روح کو صفا اور جلا بخشتا ہے ۔ نور معرفت اور تقویت روح کا باعث بنتا ہے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ سالانہ روزہ کیا ہے ؟ فرمایا : ہر ماہ کے اول ، وسط اور آخر میں روزہ رکھنا سال بھر روزہ رکھنے کے مترادف ہے اور فرمایا : یہی روزے انسان کے دل سے اضطراب اور زنگ کو دور کرتا ہے
۶۔ تجلی خلوص :
روزہ بذات خود ایک ایسا امر ہے جو نا آشکار ہے لیکن انسان کے خلوص کا زمینہ ساز ہے تجلی خلوص کے لئے زمینہ فراہم کرتا ہے ۔ انسان حکم خداوند کو انجام دے ، اپنے عمل کو بجا لائے اس کے ظاہر اور باطن کے فوائد خود انسان کو حاصل ہوجائیں گے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں : معیار اور ملاک انسان نیت ہے یعنی عمل مہم ہے جو اخلاص کے ساتھ انجام دیا جائے یہی بہترین تجلی خلوص ہے ۔ جو صرف روزہ کے ذریعے انسان کو حاصل ہوتا ہے ۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں : خداوندا ؛ میں تمہاری عبادت آتش جہنم کے خوف سے یا جنت کی لالچ میں انجام نہیں دیتا بلکہ تمہیں لائق عبادت سمجھ کر تیری عبادت کرتا ہوں ۔
لہذا ہمیں چاہئے کہ روزہ ایک امر خداوند ہے اس امر الہی کو مدنظر رکھ کر خلوص اور پاک نیت کے ساتھ رکھیں تاکہ اس کے ظاہری اور باطنی فوائد خود بخود حاصل ہوجائیں ۔
