افغانستان میں طالبان کے 15 اگست 2021 کو اقتدار میں آنے کے بعد، متعدد میڈیا اداروں نے مختلف عوامل کی وجہ سے اپنی سرگرمیاں بند کر دیں۔ ان میں ملک کی مجموعی اقتصادی مشکلات کے باعث آمدنی میں کمی، طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد عطیہ دہندگان کی حمایت کا خاتمہ، صحافیوں کا ملک سے انخلاء، اور طالبان کی جانب سے عائد کردہ مختلف پابندیاں شامل ہیں۔ طالبان نے میڈیا کے لیے انتہائی چیلنجنگ ماحول پیدا کر دیا، بشمول سنسرشپ اور معلومات تک رسائی میں مشکلات۔ اس کے علاوہ، صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کو ان کے فرائض کی ادائیگی کے دوران دھمکیاں، غیر قانونی گرفتاری اور حراست، بدسلوکی، عدالت کے مقدمات اور قید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طالبان کے اقدامات جو ایڈیٹوریل مواد اور میڈیا اداروں کی داخلی سرگرمیوں میں مداخلت کرتے ہیں، میڈیا کی آزادی کو نمایاں طور پر کم کر دیتے ہیں۔ 15 اگست 2021 سے 30 ستمبر 2024 تک، افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے 336 صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے دستاویزات جمع کئے – 256 غیر قانونی گرفتاریاں اور حراست (249 مرد، 7 خواتین)، 130 تشدد اور بدسلوکی (122 مرد، 8 خواتین) اور 75 دھمکیاں یا خوف دلی (66 مرد، 9 خواتین)۔ خلاف ورزیوں کا تعین کرنے میں شفافیت کی کمی ، اور طالبان حکام پر تنقید کرنے والوں کے خلاف دھمکیاں، غیر قانونی گرفتاریوں اور حراست کا استعمال میڈیا کو خود سنسرشپ پر مجبور کرتا ہے اور اظہار رائے کی آزادی پر منفی اثر ڈالتا ہے۔
افغانستان میں میڈیا اداروں کی سرگرمیوں پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہیں۔ ان میں ایسی موسیقی یا فلموں کی نشریات پر پابندی شامل ہے جو شریعت کے خلاف سمجھی جاتی ہیں ۔ میڈیا اداروں کے دفاتر میں مرد اور خواتین کو علیحدہ علیحدہ کام کرنا ضروری ہوتا ہے، اور مرد اور خواتین براڈکاسٹرز کو ایک پروگرام میں ایک ساتھ پیش ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ کچھ صوبوں میں خواتین کو ریڈیو پروگرامز میں کال کرنے کی اجازت نہیں ہے، سوائے ان مسائل کے جو خواتین کی صحت یا مذہبی مسائل پر مبنی ہوں۔ 21 اگست 2024 کو “نیکی کے فروغ اور برائی کی روک تھام کے قانون” نے پہلے سے موجود پابندیوں کو قانونی شکل دی، موجودہ پابندیوں کو مزید وسعت دی اور نئی پابندیاں شامل کیں۔ میڈیا کے شعبے سے متعلق نئی پابندیوں میں مخلوقات کی تصاویر بنانے یا دکھانے کی ممانعت، خواتین کی آواز کو اب نجی سمجھنا اور اس کا چھپانا، اور خواتین کو محرم (مرد سرپرست) کے بغیر ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کی ممانعت شامل ہیں۔
اس سلسلہ کو آگے برھاتے ہوئے ،فروری کے شروع میں طالبان نے غیر ملکی ٹی وی چینل کے ساتھ مبینہ تعاون کا الزام لگاتے ہوئے خواتین کے ذریعے چلائے جانے والے ’ریڈیو بیگم‘کے دفاتر پر چھاپہ مارا ، عملے کو گرفتار کیا اور اسٹیشن کو آف ایئر کر دیا ۔ لیکن چند ہفتوں کی معطلی کے بعد افغان خواتین کا یہ ریڈیو اسٹیشن دوبارہ نشریات شروع کر دے گا۔ مارچ 2021 میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر شروع کیے گئے ریڈیو بیگم کا مواد مکمل طور پر افغان خواتین تیار کرتی ہیں۔ اس کا سیٹلائٹ چینل، بیگم ٹی وی، فرانس سے کام کرتا ہے اور ساتویں سے بارہویں جماعت تک افغان اسکول کے نصاب کا احاطہ کرنے والے پروگرام نشر کرتا ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ طالبان نے ملک میں خواتین اور لڑکیوں کی چھٹی جماعت سے آگے کی تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
22 فروری کو جاری ہونے والے ایک بیان میں، طالبان کی اطلاعات و ثقافت کی وزارت نے کہا کہ ریڈیو بیگم نے آپریشن دوبارہ شروع کرنے کے لیے “بار بار درخواست کی” اور اسٹیشن کی جانب سے حکام سے وعدے کیے جانے کے بعد معطلی ہٹا دی گئی ہے۔ اس میں مزید کہا گیا کہ اسٹیشن نے “صحافت کے اصولوں اور امارت اسلامیہ افغانستان کے ضوابط کے مطابق نشریات چلانے اور مستقبل میں کسی بھی خلاف ورزی سے بچنے ” کا عہد کیا ہے۔ وزارت نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اصول اور ضابطے کیا ہیں۔ ریڈیو بیگم نے تصدیق کی کہ وزارت نے نشریات دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے دی ہےلیکن مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
قبل ازیں، ریڈیو بیگم پر پابندی کے بعد’گارجین‘ نے افغان میڈیا میں خواتین کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن کے تعلق سے ایک سابق براڈکاسٹر سے بات کی تو 22 سالہ افغان صحافی عالیہ (نام تبدیل کیا گیا) نے بتایا کہ جب طالبان نے 2021 کے موسم گرما میں افغانستان کے شہروں کی جانب مارچ شروع کیا، تب انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا اور ان کی آواز شمالی افغانستان میں بہت سے لوگوں کے لیے مانوس ہوگئی تھی۔ اس دوران انہوں نے غیر ملکی فوجوں کے انخلا، حکومت کے دفاتر کے محاصرے اور اپنے صوبے میں سابق حکام کی گرفتاریوں کی رپورٹنگ کی۔ سب سے بڑھ کر، عالیہ نے خواتین کی صورتحال اور ان کے خوف اور تشویشات پر رپورٹنگ کی – ان جذبات کی عکاسی کی جو وہ خود محسوس کر رہی تھیں۔
عالیہ نے بتایا کہ انہوں نے 2019 میں یونیورسٹی سے براہ راست اس اسٹیشن میں شمولیت اختیار کی اور طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے دو سال تک کام کیا۔ اگلے چند ماہ، طالبان کا خوف لگا رہتا تھا اور زیادہ وقت نہیں لگا کہ طالبان نے ملک میں میڈیا اور صحافیوں پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا، جس میں 336 گرفتاریوں، تشدد اور دھمکیوں کے کیسز سامنے آئے (جیسا کہ یو این اے ایم اے کے حوالے سے اوپر ذکر کیا گیا ہے)۔ اگلے دو سالوں میں، خواتین کو میڈیا سے خارج کرنا جاری رکھا گیا ۔ پہلے عوامی سطح پر خواتین کی آوازوں پر قومی سطح پر پابندی عائد کی گئی اور پھر خواتین کے ذریعے چلائے جانے والے میڈیا ادارے کو خاموش کرانے کی کوشش کی گئی۔ ’ریڈیو بیگم‘ پر نشریاتی پالیسی کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا لیکن ’ریڈیو بیگم‘ کے عملے کا کہنا ہے کہ وہ صرف افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کے لیے “تعلیمی خدمات” فراہم کر رہے تھے۔
عالیہ کہتی ہیں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں غربت اور انٹرنیٹ یا ٹیلی ویژن تک رسائی کم ہے، ریڈیو ایک طاقتور میڈیا ہے اور بہت سے خاندان خبریں اور معلومات کے لیے ریڈیو پر ہی انحصار کرتے ہیں۔دھمکیوں، شدید دباؤ اور جبری بندشوں کے سبب افغان میڈیا گزشتہ تین سالوں میں نمایاں طور پر سکڑ گیا ہے۔ طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے، افغانستان میں تقریبا 543 میڈیا ادارے تھے جن میں 10,790 کارکن کام کر رہے تھے۔ نومبر 2021 تک، ان میں سے 43 فیصد بند ہو گئے ، اور صرف 4,360 میڈیا کارکن باقی رہے ۔ خواتین کے لیے صورتحال اور بھی بدتر ہے۔ بین الاقوامی فیڈریشن آف جرنلسٹس کے حالیہ اندازے کے مطابق مارچ 2024 تک افغانستان میں صرف 600 فعال خاتون صحافی ہیں، جو اگست 2021 سے پہلے 2,833 تھیں۔ رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز کے 2024 کے پریس فریڈم انڈیکس میں، افغانستان 180 ممالک میں 178 ویں نمبر پر ہے۔ اس سے ایک سال پہلے یہ 152 ویں نمبر پر تھا۔
