63

وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بلڈنگ اینڈ کنسٹرکشن ورکرز ویلفیئر بورڈ کے 22ویں بورڈ میٹنگ کی صدارت کی

وزیر اعلیٰ کی کارکنوں کی فلاح و بہبود اور کوریج بڑھانے پر زورسری نگر// وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے سول سیکرٹریٹ میں جموں و کشمیر بلڈنگ اینڈ ادر کنسٹرکشن ورکرز ویلفیئر بورڈ(جے کے بی او سی ڈبلیو ڈبلیو بی) کے 22ویں میٹنگ کی صدارت کی۔میٹنگ کا مقصد مختلف فلاحی اَقدامات کی عمل آوری کا تفصیلی جائزہ لینا اورتعمیراتی مزدوروں اور ان کے کنبوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اہم اقدامات کی منظوری دینا تھا۔وزیر اعلیٰ نے بورڈ کی طرف سے اَب تک کی گئی پیش رفت کو سراہتے ہوئے اس بات کی سراہنا کی کہ بورڈ نے 2.85 لاکھ سے زائد فعال تعمیراتی مزدوروں کو فلاحی دائرے میں لایا ہے۔اُنہوں نے فوائد کی شفاف، بروقت اور ہدفی فراہمی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اَفسران کو ہدایت دی کہ وہ رَسائی کے طریقۂ کار کو وسعت دیں، درخواستوں کے عمل کو آسان بنائیں اور یہ یقینی بنائیں کہ کوئی بھی اہل مزدور بورڈ کے فوائد سے محروم نہ رہے۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ’تعمیراتی کارکن‘ کی ایک وسیع اور زیادہ جامع تعریف پر زور دیا تاکہ غیر منظم اور کمزور طبقے کے تمام مزدور اس کے دائرے میں آ سکیں۔اُنہوں نے بورڈ پر زور دیا کہ وہ ایسی پالیسی میکانزم کو تلاش کرے جو مزدوروں کی زیادہ سے زیادہ شمولیت اور مالی تحفظ کو یقینی بنائیں تاکہ قومی بہترین طریقوں اور مزدوروں کے معیارات کے مطابق اقدامات کئے جا سکیں۔میٹنگ میں نائب وزیر اعلیٰ سریندر کمار چودھری، ایڈیشنل چیف سیکرٹری جل شکتی شالین کابرا، وزیر اعلیٰ کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری دھیرج گپتا، پرنسپل سیکرٹری فائنانس، پرنسپل سیکرٹری تعمیراتِ عامہ (آر اینڈ بی)، پرنسپل سیکرٹری پی ڈِی ڈِی، کمشنر سیکریٹریز مکانات و شہری ترقی محکمہ، سماجی بہبود، اِمدادِ باہمی، سیکرٹری محنت و روزگار، سیکرٹری قانون ، ڈائریکٹر جنرل بجٹ، بھارتیہ مزدور سنگھ اور بھارتیہ دستکار یونین کے نمائندگان نے شرکت کی۔میٹنگ میں محکمہ منصوبہ بندی اور دیگر متعلقہ محکموں کے سینئر افسران نے بھی حصہ لیا۔
سیکرٹری محنت و روزگار کمار راجیورنجن نے بورڈ کی نمایاں کامیابیوں، پالیسی اصلاحات اور مالیاتی پیش رفت پر تفصیلی پرزنٹیشن دی۔اُنہوں نے بتایا کہ بورڈ بی او سی ڈبلیو ایکٹ 1996 کے تحت کام کر رہا ہے اور اس کے تحت متعدد فوائد فراہم کئے جا رہے ہیں جن میں حادثاتی اموات پر ایکس گریشیا اِمداد، مستقل و عارضی معذور اَفراد کے لئے مالی تعاون، رجسٹرڈ مزدوروں کے بچوں کے لئے تعلیمی امداد شامل ہیں۔ اِس کے علاوہ دسویں اور بارہویں جماعت میں 90 فیصد یا اس سے زیادہ نمبر لینے والے طلبأ کو 50,000روپے کی ایک بار سکالرشپ، شادی و زچگی امداد،دائمی بیماریوں کے لئے مالی معاونت اور آخری رسومات کے اخراجات کی فراہمی بھی شامل ہے۔بورڈ نے شفافیت اور کارکردگی کو یقینی بنانے کے لئے ڈیجیٹل اصلاحات کی ہیں جن میں تمام مالی امداد کے لئے صد فیصد ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر (ڈِی بی ٹی)، آدھار انضمام، آن لائن رجسٹریشن اور تجدید کے لئے پورٹل، او ٹی پی تصدیق اور ایس ایم ایس الرٹس شامل ہیں۔بورڈ سیس کی وصولی اور جمع شدہ سود کے ذریعے آمدنی پیدا کرتا ہے۔ اِس وقت 1082.58 کروڑ روپے مختلف بینکوں میں فکسڈ ڈیپازٹس اور سیونگ اکاؤنٹس میں بطور کورپس موجود ہیں۔میٹنگ میں مالی برس 2024-25 ء اور 2025-26 ء کے لئے سکیم وار بجٹ تجاویز اور 30 ؍اکتوبر 2020ء کے ایس او 339 کے مطابق لداخ یونین ٹیریٹری کو 17.24 کروڑ روپے کی منتقلی سمیت متعدد اہم امور کی منظوری دی گئی۔مالی برس 2022-23 ء اور 2023-24 ء کے آڈِٹ شدہ اکاؤنٹس بھی منظور کئے گئے جو آڈیٹر جنرل کو تصدیق کے لئے بھیجے جائیں گے۔میٹنگ میں بورڈ کے اقدامات کو سماجی تحفظ اور مالی شمولیت کی وسیع سکیموں سے جوڑنے کی بھی منظوری دی گئی تاکہ فوائد کا زیادہ سے زیادہ اثر یقینی بنایا جا سکے۔ڈیجیٹل گورننس کی طرف ایک اہم قدم کے طور پررجسٹرڈ مزدوروں کے لئے سمارٹ کارڈوں کے اجرا ٔکی بھی منظوری دی گئی جس کے لئے10کروڑ روپے کا بجٹ تجویز کیا گیا۔کام کی جگہ پر حفاظت کو بہتر بنانے کے لئے دیہی علاقوں کے مزدوروں کو ذاتی حفاظتی سامان (پی پی اِی) اور آلات فراہم کرنے کے لئے60کروڑ روپے کی منظوری دی گئی۔ سکل ڈیولپمنٹ کے لئے 10,000 مزدوروں کے لئے قلیل مدتی تربیتی پروگراموں این ایس ڈی سی اصولوں کے تحت منظور کئے گئے جن کے لئے 10کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا۔تعلیمی سکالرشپ سکیم کی بھرپور پذیرائی کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ تمام اضلاع میں میرٹ کی بنیاد پر اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے طلبأ کے لئے مختلف درجات مقرر کئے جائیں گے جبکہ کم از کم 90 فیصد کٹ آف برقرار رکھا جائے گا۔بورڈ نے عملے کی مستقل تقرری سے متعلق طویل عرصے سے زیر اِلتوا ٔمعاملے پر بھی غوروخوض کیا اور متعلقہ کمیٹی کو ہدایت دی کہ وہ چھ ماہ کے اندر تمام متعلقہ محکموں سے مشاورت کر کے بھرتی کے قواعد کو حتمی شکل دیں۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنے اختتامی کلمات میں حکومت کی اس عزم کا اعادہ کیا کہ فلاحی فوائد ہر مستحق مزدور تک پہنچیں گے۔اُنہوں نے مستقبل کے حوالے سے اصلاحات، مؤثر نگرانی اور جامع پالیسی سازی کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ُدور دراز اور پسماندہ علاقوں کے مزدوروں کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں