سائنسی طریقہ کاشت، درجہ بندی اور منصوبہ بندی ہی منڈی میں بہتر قیمت کی ضمانت: النور ایگری فریش
سرینگر//وی او آئی//کشمیر کے معروف پھل پروسیسنگ یونٹ “النور ایگری فریش پرائیویٹ لمیٹڈ” کے ڈائریکٹر جناب عابد بشیر نے وادی کے سیب کاشتکاروں کو منڈی میں بہتر منافع حاصل کرنے کے لیے سائنسی اور منصفانہ تجارتی طریقے اپنانے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے ایک تفصیلی گفتگو میں سیب کی صنعت کو درپیش کئی بنیادی مسائل کی نشاندہی کی، جن میں سب سے اہم “گراں” پھل کی فروخت کا رجحان ہے۔وائس آف انڈیا کے مطابق عابد بشیر نے وضاحت کی کہ “گراں” سے مراد وہ سیب ہیں جو درخت سے قبل از وقت اور قدرتی طور پر گر جاتے ہیں، اور اکثر داغدار یا خراب ہوتے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ جب یہ کم معیار کے پھل اعلیٰ درجے کے ہاتھ سے چنے گئے سیبوں کے ساتھ ملا دیے جاتے ہیں، تو پوری کھیپ کی قدر گھٹ جاتی ہے اور کسانوں کو مناسب قیمت نہیں ملتی۔انہوں نے کہاکہ کاشتکاروں کو چاہیے کہ وہ ‘گراں’ پھل کو بیرونی منڈیوں میں بھیجنے کی روایت ترک کریں۔ یہ عمل سیب کی مجموعی قدر کو کم کرتا ہے اور کسانوں کی آمدنی پر منفی اثر ڈالتا ہے۔بشیر نے کسانوں کو جلد بازی میں پھل منڈیوں تک پہنچانے سے گریز کرنے کی تلقین کی۔ ان کے مطابق بغیر درجہ بندی اور مناسب پیکنگ کے پھل بھیجنے سے منڈی میں اضافی سپلائی ہو جاتی ہے، جس سے قیمتیں گر جاتی ہیں۔ہمیں گھبراہٹ میں فروخت کا سلسلہ ختم کرنا ہوگا۔ مناسب منصوبہ بندی، درجہ بندی اور پیکنگ کے ذریعے ہی ہم اپنی پیداوار کی قدر بڑھا سکتے ہیں۔النور ایگری فریش کے ڈائریکٹر نے سرد خانوں پر بڑھتے دباؤ کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سیزن میں پھلوں کی آمد بہت زیادہ ہے، جس سے ذخیرہ گاہوں کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ بغیر منصوبہ بندی کے پھلوں کی آمد سے نہ صرف لاجسٹک مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ پھلوں کے معیار پر بھی اثر پڑتا ہے سرد خانے سیب کی کوالٹی برقرار رکھنے اور منڈی میں سپلائی کو منظم کرنے کے لیے اہم ہیں، مگر ان پر بے قابو دباؤ سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔جناب عابد بشیر کے خیالات وادی کی سیب صنعت کے لیے ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ “گراں” پھل کی فروخت ترک کر کے، سائنسی طریقہ کاشت، درجہ بندی اور منڈی میں حکمت عملی سے سپلائی کے ذریعے ہی کشمیری سیب اپنی اصل قدر حاصل کر سکتے ہیں۔
